اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال

کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے میں کہ (۱) نماز جمعہ یا نماز عید کے دونوں خطبوں کے درمیان شعر پڑھنا کیسا ہے۔ لوگوں کاکہنا ہیکہ دونوں خطبوں کے درمیان شعر پڑھنا چاہیئے۔کیونکہ ہم لوگوں کو عربی سمجھ میں نہیں آتی۔(۲)خطبہ کے لئے جو اذان ہوتی ہے وہ اذان خاص ممِبر کے سامنے ہونا چاہیئے یا خارج مسجد ہونا چاہیے(۳)جماعت کھڑی ہونے سے پہلے جو اقامت ہوتی ہے اس اقامت میں پہلے کھڑا ہونا چاہیے یا حیّ علیٰ الصلوۃ حیّ علی الفلاح، پر کھڑا ہونا چاہیے۔

ان سوالوں کا جواب قرآن حدیث کے ساتھ عنایت فرمائیں۔ عین نوازش ہونگی۔فقط والسلام شمع الدین راکھی کول ،ضلع چھندواڑا (ایم پی)

الجواب بعون الملک الوھاب

(۱)صورت مسؤلہ میں جمعہ یا عیدین کے عربی دونوں خطبوں میں اردوزبان کے اشعا رکا خلط ملط خلاف سنت متوارثہئ مسلمین ہے اور سنت متوارثہ کا خلاف مکروہ قرناً فقرناً اہل سلام میں ہمیشہ خالص عربی میں خطبہ معمول و متوارث رہا ہے اور متوارث کا اتباع ضرو ری ہے۔ درمختار میں ہے۔

لان المسلمین توارثوہ فوجب اتباعھم وعلیہ البلخیون“ (درمختار،جلد اول،صفحہ ۷۱۱،مطبوعہ کتب خانہ دیوبند)

زمانہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں بحمداللہ ہزار ہا بلاد عجم فتح ہوئے۔ ہزاروں عجمی حاضر ہوئے مگر کبھی منقول نہیں کہ انھوں نے انکی غرض سے خطبہ غیر عربی میں پڑھا یا دوسری زبان کا خلط کیاہو۔ عوام کا یہ عذرجب صحابہ کرام کے نزدیک لائق لحاظ نہ تھا اب کیوں مسموع ہونے لگا۔ بات یہ ہے کہ شریعت مطہرہ نے علم سیکھنا سب پرواجب کیا ہے عوام نہیں سمجھتے، بسبب اس کے کہ نہیں سمجھے،کیا انکے لئے قرآن اردو میں پڑھا جائے؟ واللہ تعالیٰ اعلم۔ (۲)خطبہ کے لئے جو اذان ہوتی ہے وہ خطیب کے سامنے اور خارج مسجد کہی جائیگی کہ یہ دونوں سنت ہیں۔ محاذات خطیب دوسرے اذان کا مسجد کے باہر ہونا۔ مسجد کے اندر اذان دینا منع وخلاف سنت ہے۔ بخاری شریف میں ہے۔ :۔

وعن السائب بن یزید قال کان النداء یوم الجمعۃ اوّلہُ اذا جلس الا مام علی المنبر علی عھد النبی صلی اللہ علیہ و سلم وابی بکر وعمر فلماکان عثمان وکثر النا س زادالنداء الثالث علی الزوراء“ روہ البخاری (بخاری جلد اول، کتاب الجمعۃ باب الاذان یوم الجمعۃ،صفحہ ۴۲۱/مطبوعہ مجلس البرکات الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور) ۲ فتاویٰ ھندیہ میں ہے:۔

وینبغی ان یؤذن علی المئذنۃ او خارج المسجد ولایؤذن فی المسجد“ کذافی فتاویٰ قاضی خاں۔ (فتاویٰ ہندیہ جلد اول صفحہ ۵۵/کتاب الصلاۃ، الفصل الثانی فی کلمات الاذان والاقامۃ وکیفیتھما مطبوعہ دارالکتاب دیوبند)

(۳)اقامت کے وقت کھڑے ہوکر انتظار مکروہ و خلاف سنت ہے حکم ہے کہ بیٹھ جائے اور جب مؤذن حی علی الفلاح پر پہونچے تب سب کھڑے ہوں جیسا کہ رد المحتارمیں ہے:۔ ویکرہ لہ الا نتظار قائماًولکن یقعد ثم یقوم اذابلغ المؤذن حیّ علی الفلاح“ انتھی

(ھندیہ عن المضمرات(ردالمحتار جلد دوم، کتاب الصلاۃ، مطلب فی کراھۃ تکرار الجماعۃ فی المسجد، صفحہ ۵۶، مطبوعہ دارالکتاب دیوبند)

واللہ اعلم بالصواب۔

کتبہ :۔ محمد عبدالرشید غفرلہ جامعہ عربیہ، ناگپور۔ ۳ / ذی قعدی

دارالافتاء:جامعہ عربیہ اسلامیہ ناگپور

فتوی نمبر : 0005