مجلس علماء جامعہ عربیہ اسلامیہ ناگپور

 سن 1938ء میں جامعہ عربیہ اسلامیہ کا قیام اور آپ کی عظیم خدمات

 

 فقیہ اعظم ہند دعائے تاج الاولیاء تھے

شہنشاہ ہفت ِاقلیم کی دعوت الخیر:علم دین کی اہمیت وافادیت کے پیش نظرحضرت فقیہ اعظم علیہ الرحمہ ایک مضبوط اور مستحکم علمی مرکز کے قیام پر غورو خوض فرمایا کرتے تھے۔آپکی نگاہِ انتخاب وسطِ ہند کے صوبہ سی پی و برار(جو موجودہ صوبہئ مہاراشٹر ہے) کے دارالحکومت ناگپور پر مرکوز ہوئی۔

اس زمانہ میں پورے صوبے خصوصاًناگپور شہر میں (جہاں بڑی تعداد میں مسلمان آباد تھے) کوئی دینی درس گاہ نہیں تھی، اس طرح یہ علاقہ دین کی روشنی سے محروم تھا۔

ناگپور سی۔پی وبرار(صوبہ مہاراشٹر) کا دارالحکومت تھا۔ رجواڑہ ہونے کی وجہ سے یہاں علم دین کا بڑا فقدان تھا، مقامی مسلمانوں کی اکثریت ہندوانہ رسم ورواج میں ملوث جہالت اور گمراہی کا شکار تھی مثلاً محرم میں سواری اٹھا نا، خود اور اپنے بچوں کو شیر کے رنگ میں رنگ کراور گلے میں طوق وزنجیریں ڈال کرباجے تاشے کے ساتھ جلوس نکالنا علاوہ ازیں اور بھی طرح طرح کی گمر اہیوں میں مبتلا تھے۔ اور اسلامی عقائدو نظریات سے بے بہرہ تھے اس کے علاوہ مسلمانوں کی اخلاقی وما لی حالت بھی بڑی ابتر تھی۔

اس علاقہ کا کپاس اور سنترہ بہت مشہور ہے قدرتی ومعد نی وسائل سے مالا مال ہونے کے با و جود علمی اور مذہبی لحاظ سے بڑاپس ماندہ تھا۔ حضرت سید بابا محمد تاج الدین اولیاء رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے روحانی فیوض وبر کات اور کرامات کے ذریعہ لوگوں کے قلوب کو مسخر کر کے ان کے اذہان کو مذہب اسلام کی طرف موڑدیا تھا۔ مگر آپ کے وصال کے بعد علم نہ ہونے کی وجہ سے یہ روحانی فیض عام نہ ہوسکا بلکہ چند  رسومات مثلاً حضرت بابا تاج الدین اولیاء رحمتہ اللہ علیہ کے سالانہ عرس اور مروجہ میلہ تک محدود ہوکر رہ گیا،مگرحضرت بابا تاج الدین اولیاء رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی ظاہری حیات ہی میں ا ہا لیان ناگپور بلکہ وہ تمام علاقہ جوکہ سرکار بابا تاج الدین اولیاء سے وابستگی رکھتا ہے سب کے لئے علم دین حاصل کرنے اور شریعت مطہرہ کے مطابق زندگی بسر کرنے کی خاطر ایک مخلص عا لم دین کوروحانی طور پر ناگپور موعو کردیا تھا۔ چونکہ ایمان سے لوگ مشرف ہو ہی چکے تھے تو ساتھ ساتھ راہِ شریعت سے بھی منسلک ہوجائیں۔

چنانچہ اس شخصیت نے اس علاقہ کو اپنے پیر و مرشد سید علی حسین میاں اشرفی میاں علیہ الرحمہ کے حکم خاص پرانتخاب فرما کر دینی بصیرت کا ثبوت دیا ورنہ اور بھی علمائے حق تھے جنکی دینی و علمی خدمات مسلم تھیں،مگر وہ بھی اپنی مصروفیات کے باعث کوئی وقت نہ نکال سکے جو کہ اس مرکزی علاقہ کی اصلاح کے لئے ضروری تھا۔

قدرت کو یہاں ایک ایسا دینی قلعہ قائم کرنا مقصود تھا جوتبلیغ کا حقیقی مقصد پورا کر سکے اور جس کی افادیت قائم ودائم رہے جسکی روشنی وقتی اور عارضی نہ ہوجیساکہ عموماً مروجہ تبلیغ کا حال ہوتا ہے۔ وقتی طور پر جذبات کے دہا نے مڑجاتے ہیں مگر اس کا اثروقتی جذبات کے تابع ہوتا ہے جذبات کے ٹھنڈا پڑتے ہی اثر بھی زائل ہوجاتا ہے۔ اور زندگی کے معمولات پھر اپنے اصلی حالت پر لوٹ جاتے ہیں۔ محض لوگوں کی جماعت کے ساتھ گشت کرادینے اور اجتماعی طور پر چند نمازیں پڑھادینے یا کلمہ شریف کا ورد کرادینے سے توتبلیغ کا فرض ادانہیں ہوجاتا۔ اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ لوگوں کے ذہنوں میں اسلام کی روح اور اس کے فلسفہ کو راسخ کیا جائے۔ اسلام دین ِفطرت ہے۔ حقیقی تبلیغ توعلم دین کا عام کرناہے۔ اسلام کی حقیقی روح تو علم دین کے ذریعہ ہی ذہن نشین کرائی جاسکتی ہے۔

دوسرا طریقہ جو عوام میں رائج ہے وہ مقامی زبان کی د ینی کتابیں ہیں۔ جن سے کسی حدتک استفا دہ ممکن ہے۔ لیکن وہ بھی معمولی حدتک معاونت کرسکتی ہیں۔ مگر کسی کتاب کا ترجمہ وہ تاثر پیدا نہیں کرسکتا جو کہ مصنف کا منشا حقیقی ہے۔ پھر یہ کہ اصل زبان میں جو لطافت اورنزاکت ہوتی ہے جو تشبیہات اور استعارات ہوتے ہیں خصوصاً عربی زبان میں جو اپنی فصاحت وبلا غت کی بناپر اپنی نظیر آپ ہے۔ قرآن پاک دینی فقہی کتب عربی زبان میں ہیں اس لئے اس کے ترجمہ کے ذریعہ سے وہ بات پیدا نہیں ہو سکتی جو منشاء الٰہی ہے پھر اس کا ایک لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ موضوع جواصل زبان میں اپنی افادیت کے لئے بنیادی اہمیت رکھتاہے ترجمہ میں بڑی حدتک وہ مقصدفوت ہوجائیگا۔ خصوصاً اسلامی آداب جو بنیادی اہمیت کے حامل ہیں ترجمہ یا تقریر میں وہ محض ایسا طریقہ معلوم ہوتے ہیں جن پر عمل کرنا بڑاد شوار معلوم ہو تا ہے اور انہیں ملکوتی صفات کہہ کر نظر انداز کردیا جاتا ہے۔

یہ بات محتاج بیان نہیں کہ قرآن پاک تد ریجا ًنازل ہوا، کب اور کن حالات میں کون سی آیت نازل ہوئی اس کا منشاء اس وقت تک معلوم نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کا صحیح پس منظر(شان نزول)قاری کے سامنے نہ ہو۔ اسی طرح کون سی آیت ناسخ ہے اور کون سی منسوخ، وجہ نسخ کون سے حالات ہیں۔متشابہات کا علم اور ان کے بارے میں احکام۔ یہ وہ باتیں ہیں جو بڑی جانفشانی اور محنت کے بعد علم دین کے ذریعہ سے ہی حاصل ہو سکتی ہیں۔ چند دن جلسے و جلوس سے یہ علم حاصل نہیں ہوسکتا بلکہ کسی جید اور مستندعالم کے سامنے زانوئے ادب تہہ کرنا پڑتا ہے۔ کچھ ایسا ہی حال احادیث طیبہ کا ہے۔ جن کو بڑی عرق ریزی کے بعد محدثین کرام نے مدون کیا اگر یہ بات دین کے استحکام کے لئے ضروری نہ ہوتی تو صدیوں تک محدثین مفسرین کاو شیں نہ فرماتے مختصر یہ کہ تبلیغ کا صرف ایک جامع طریقہ اشاعت علم دین کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔ چنانچہ ذی شعوراور باعمل افراد جنہیں اللہ تبارک و تعالیٰ نے تو فیق عنایت فرمائی ہے۔ا نھوں نے اسی مناسب ذریعہ کو اختیار کیا ہے۔ اور علم دین کی نشر و اشاعت کیلئے اپنی زندگی وقف کردی۔

اگر علم دین کی اشاعت اتنی ضروری نہ ہوتی تو دیگر اقوام کی طرح اسلام بھی محض رسمی مذہب بن کررہ جاتا۔ اور چند افراد تک ہی محدودرہ جاتا جوا سے پیشے کے طور پر استعمال کرتے۔ اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام کی ترقی کا انحصارصرف علم دین کی اشاعت پر منحصرہے۔ ماضی میں جبکہ آمدورفت کے ذرائع بڑے دشوار اور پرُ خطر تھے اس دور میں بھی علم کے خواہش مندحصولِ علم کے لئے دور دراز مقامات کا سفر اختیار کرتے۔ ارشادنبوی صلی اللہ علیہ وسلم”اطلبوا العلم و لوکان فی الصین“ ان کے پیش نظر رہتا۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج ہمارے سامنے ہر علم وفن پر جامع اور وقیع ذخیرہ کتب موجود ہے اس سے استفادہ اسی صورت میں ممکن ہے جبکہ ہم حصول علم پر توجہ دیں اور اس کی طلب میں کوشاں رہیں۔ اور محض رضائے الہٰی کے لئے علم حاصل کریں۔نجات اور فلاح کا دارو مدار اسی پرہے۔ لیکن ہماری بد نصیبی کی انتہا ہے کہ اس دور میں جبکہ دنیا میں اس کنارہ سے اُس کنارے تک پہونچنا انتہائی آسان ہے۔ لوگ تحصیل علم کے لئے قریب ترین مقام کا سفر کرنے میں بھی دشواری محسوس کرتے ہیں۔و قتی طور پرجلسوں اور تقاریر میں شرکت کو اس نعمت کابدل سمجھ لیتے ہیں لہٰذا یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ محض اردو کی چندغیر مستند کتابیں پڑھ کر اپنا دین و ایمان محفوظ رکھ سکیں اور عقیدہ کی اصلاح کس طرح ممکن ہے۔ جب علم ہی سے بے بہرہ ہوں گے تودینی و دنیاوی معاملات سے کماحقہ عہدہ بر آہوناکس طرح ممکن ہے۔ مسلمانوں کی اس بے حسی کانتیجہ ہے کہ ہر قسم کے لوگ میدان میں آگئے۔ غیرذمہ دار جماعتوں اور گمراہ وجاہل واعظوں نے مسلمانوں کو تفرقہ کا شکار بنادیا۔ عوام کے ذریعے اس کی بھی ذمہ داری علماء کے سرڈال دی جاتی ہے کہ انہوں نے اپنے حلوہ مانڈے کی حفاظت کے لئے مسلمانوں میں اختلاف پیدا کردیا ہے۔ حالانکہ علم دین حاصل کرنے کیلئے کسی کی بھی قید نہیں ہے۔ جہلانے محض الزام کے طورپر گڑھ لیاہے۔ یہ کس طرح ممکن ہے کہ جولوگ ہرلحاظ سے کورے ہوں محض اردو کی چندکتابیں (نصابات) پڑھکردینی مشن پر کمر بستہ ہوجائیں۔ ظاہر ہے کہ یہ جہالت اپنی اور دوسروں کی دنیا اور آخرت کی زندگی کی تباہی کا سبب ہی بنے گی۔مقام حیرت ہے کہ لوگ اپنے اس فعل کو خالص مذہبی اور اصلاحی قراردیکر ثواب کے حقداربھی بننا چاہتے ہیں۔ لیکن ایک شخص جو خود اپنی اصلاح نہ کرسکتا ہو وہ دوسروں کی اصلاح کس طرح کریگا۔

اس طریقہ کا رمیں تیسری خرابی یہ ہے کہ اسلامی شریعت کے مزاج کو نہ سمجھنے کی وجہ سے یہ حضرات کئی بدعات کو بھی مروج کردیتے ہیں۔ اور صرف حقوق اللہ کی ادائیگی پرمطمئن ہوکر حقوق العباد سے غافل ہو جاتے ہیں۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ”فضل العالم علی العابد کفضلی علی اد ناکم“یعنی ایک عالم کو عابد پر ایسی فضیلت حاصل ہے جیسی کہ مجھے ایک ادنیٰ آدمی پر حاصل ہے۔

دوسری جگہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے علماء کی فضیلت اس طرح ارشاد فرمائی ہے العلماء ورثۃ الا نبیائیعنی علماء انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں۔اور درجات کی بلندی کا تصور تو صرف ”یر فع اللّٰہ الذین آمنوا منکم والذین اوتوا العلم درجات (سورۃ مجادلۃ:۱۱)“ کے تحت ہی ممکن ہے۔ دنیا میں جتنے اولیاء کرام اور بزرگان دین گزرے ہیں وہ علم باطنی کے ساتھ علم ظاہری کے بھی مظہرتھے۔ اس ظاہری (علم دین) اورباطنی (تصوف) علم کو حاصل کرنے کیلئے ان نفوسِ قد سیہ کوسخت آزمائشوں سے گزرنا پڑا تب کہیں جاکر وہ یہ مقام حاصل کرسکے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ ”بے علم نہ تواں خدا راشناخت“جب انسان اپنے خالق ومالک کو ہی نہ پہنچان سکے گاتو وہ حقوق اللہ اور حقوق العباد میں کیسے تمیز کر سکے گا، ان سے واقف ہونے کے لئے علم دین کا حاصل کرنا شرط اول ہے اس کے بعد روحانی ترقی کا درجہ آتاہے جو کسی باکمال شیخ کے ذریعے ہی ممکن ہے اب اس بات کا فیصلہ کرنا دشوار نہیں کہ ہر مسلمان کے لئے دین کا علم حاصل کرنا کتنا ضروری ہے اس کے بعد طریقت کی راہ پر چلنا آسان ہوجاتا ہے۔ صحیح معنوں میں شیخ کامل کے انتخاب و تلاش میں مددملتی ہے۔ گمراہی کا خطرہ کم رہ جاتا ہے۔ انسانیت کے کمال اور مدارج کی ترقی کا انحصاراسی پر ہے۔

فقیہ اعظم ہند کی حضرت بابا تاج الدین سے پہلی ملاقات

پیرومرشد شیخ المشائخ اعلیٰ حضرت سید شاہ علی حسین صاحب اشرفی کچھو چھوی قدس سراہ العزیز کے ہمراہ  1923؁ء میں ناگپور تشریف لائے۔ اور چند دن قیام رہا، اورحضرت باباسید محمدتاج الدین رحمتہ اللہ علیہ سے ملاقات ہوئی۔

جس کی تفصیل اس طرح ہے کہ اپنے پیر و مرشد اور برادر حقیقی حضرت مولانا عبد العزیز صاحب اور دو چند افراد کے ہمراہ پہونچے تو بابا سرکار اپنی زبان میں بولے ”ہوشیار ہوجاؤ جی شریعت والے آتے“ اور جب اندر پہنچ گئے تو لوگوں نے دیکھا کہ واقعی کچھ لوگ آرہے ہیں ان کے پیر و مرشد سے کچھ گفتگو ہوئی اس بات کا کوئی حوالہ نہیں ملتا کہ کیا بات چیت اس دوران ہوئی۔اس قیام کے دوران متعدد بارحضرت بابا تاج الدین رحمتہ اللہ علیہ سے ملاقات کا شرف حضور فقیہ ِاعظم ہند علیہ الرحمہ کو حاصل ہو ا۔

فقیہ اعظم ہند کی حضرت بابا صاحب سے آخری ملاقات اور نمازِجنازہ پڑھانا

ماہ اگست 1925ء میں اپنے پیر و مرشد کے حکم پر دوبارہ ناگپور تشریف لائے اور    متعدد بارحضرت بابا تاج الدین رحمتہ اللہ علیہ سے ملاقات کا شرف حاصل کیا۔  اور ناگپور میں قیام پذیر تھے۔

اسی دوران محرم کی 16/ 17/ تاریخ تھی کہ حضرت بابا تاج الدین رحمتہ اللہ علیہ کو قدرے بخارہوا۔ حضور نے دوماہ قبل ہی کچھ ایسے اشارے فرمائے تھے کہ سب مریدین وخدام متفکر رہنے لگے تھے۔حکیم ظفر حسین صاحب تاجی آپ کی خدمت میں مصروف تھے۔ نیز مہاراجہ صاحب کی طرف سے ڈاکٹر حاضر خدمت تھے ایک روز ڈاکٹر چولکر صاحب تاجی حاضر ہوئے اور حضور کو دیکھکر بتایا کہ مجھے تو کوئی مرض معلوم نہیں ہوتا۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ کس مرض کا علاج کروں؟ یہ کہہ کر ڈاکٹر صاحب چلے گئے اور دوسرے دن پھر حاضر ہوئے، لیکن مرض پھر بھی تشخیص نہ کیا جاسکا۔

الغرض ہر ممکن کوشش کے باوجود حضور کی حالت حق تعالیٰ کی طرف مائل ہوتی جارہی تھی۔ مہاراجہ نے بحکم حضور بابا صاحب علیہ الر حمہ ہر طرف اطلاع کرادی کہ ہر شخص حضور کی ملاقات کو حاضر ہو سکتا ہے۔

17/اگست 1925ء؁ مطابق 26/ محرم الحرام 1344ء؁ یوم ددوشنبہ (پیر)بوقت مغرب ہر ایک آدمی کے لئے ہاتھوں کو اٹھا کر دعا کی۔ اور ہرخدمت گزار کی تسلی وتشفی فرمائی اور پلنگ سے اُٹھ کر ایک مرتبہ ہر ایک کو نظرِ رحمت سے دیکھا۔ پھر پلنگ پر لیٹ گئے اور ایک کھنکار اور کلمہ ٔ لا الہ الااللہ محمد رسول اللہ کے ساتھ ہی روح پر واز کرگئی۔

اِس دوران حضرت فقیہ اعظم علیہ الرحمہ ناگپور ہی میں تشریف فرما  تھے۔بابا تاج الدین رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کی جانکاہ خبر موصول ہوتے ہی شکر درا روانہ ہو گئے۔سی پی، برار میں ہر جگہ خبر ہو چکی تھی۔کثرت سے لوگ جمع ہو چکے تھے۔ رگھوجی راجہ آپ کو شکردرہ میں دفنانا چاہتا تھا۔ مگر نواب نیاز الدین خان نے ’بیر بیٹ‘ میں ایک پلاٹ دیا اور اعلان کیا کہ ہمیں ہزارو روپے ملنے پر پورا موضع ”بیربیٹ“ بابا صاحب کی درگاہ کو دیدیں گے۔ حضرت رحمتہ اللہ علیہ کا جنازہ مغرب کے وقت تاج آباد شریف پہنچ گیا۔                         شہنشاہ  ہفت اقلیم حضرت بابا سید محمد تاج الدین رحمتہ اللہ علیہ کی نمازِ جنازہ فقیہ اعظم ہند مفتی محمد عبدالرشید خان فتح پوری علیہ الرحمتہ نے پڑ ھائی۔ اسی وقت حضرت فقیہ اعظم علیہ الرحمہ نے دینی علوم کو فروغ دینے کے لئے مدرسہ کی بنیادرکھنے کا قصدکرلیا۔

فقیہ اعظم کی تیسری بار ناگپور آمداورجامعہ عربیہ کا  قیام

فخرالاماثل استاذ العلما و المشائخ فقیہ اعظم حضرت علامہ مولانا مفتی الشاہ عبدالرشید خان فتح پوری رحمتہ اللّٰہ علیہ خلیفہئ اعلحضرت صدراالا فاضل حضرت مولانا سید نعیم الدین صاحب مراد آبادی کے شاگرد خاص تھے اور شروع سے ہی اپنے قلب میں مسلم معاشرہ میں دینی علوم کو فروع دینے کا جذبہ رکھتے تھے۔ اسلئے آپ اس کام کے لئے طویل عرصہ تک کچھوچھہ شریف،اجمیر شریف،دھوراجی،امرتسر،، وغیرہ میں علمی خدمات انجام دیتے رہے۔

کچھوچھہ کے مشائخ سادا ت کے بچوں وغیرہ عوام وخاص کو دینی علوم سے روشناس کراتے رہے۔ اس دوران آپ دھوراجی گجرات چلے گئے وہاں بھی عرصہئ دراز تک تدریسی خدمات انجام دیتے رہے اور بہت سے تلامذہ کو علوم دینیہ سے آراستہ کرکے ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں دینی خدمات کے لئے مقررفرمادیا۔

جہاں علم دین کا حاصل کرنا فرض ہے اس کے ساتھ علم دین کی ترویج و اشاعت بھی لازمی ہے چنانچہ اسی مقصد کے پیش نظر حضرت فقیہ اعظم ہند علیہ الرحمہ نے ایک مرکزی دارالعلوم کے قیام کا عزم مصمم فرمایا۔ چونکہ آپ کے ارادہ میں خلوص تھا،للہیت تھی،علم دین کی ترویج و ترقی کا جذبہ بدرجہئ اتم موجود تھا۔اور جب نیت میں اسقدرخلوص ہو تو خدا وند قدوس مدد فرماتا ہے۔ آپ نے اپنے عز م مصمم کو عملی جامہ پہنا نے کے لئے ناگپور کو منزل مقصودبنایا۔

جامعہ عربیہ اسلامیہ کا قیام

9/ جنوری  1938ء؁ مطابق 19/ ذی الحجہ 1355؁ھ محلہ نعل صاحب ناگپور میں ایک دینی مدرسہ جامعہ عربیہ اسلامیہ کی بنیا درکھی آپ کا مقصد محض ابتدائی تعلیم نہ تھا۔ بلکہ تدریجاً ایک ایسا ادارہ قائم کرنا تھا۔جس میں جملہ دینی و عصری علوم و فنون کی اعلیٰ درجہ کی معیاری تعلیم دی جاسکے۔

حضرت علیہ الرحمہ کو درسی علوم میں مہارت تامہ اور فقہ و افتا میں بھر پوردسترس تھی۔اور تقویٰ و طہارت میں بڑے با کمال تھے۔ جب طلبا و علما کو معلوم ہوا کہ حضرت ناگپور پہنچ گئے ہیں تو تشنگان علمِ دین جوق درجوق جامعہ عربیہ اسلامیہ ناگپور حضرت کی خدمت میں اپنی علمی پیاس بجھانے کیلئے پہونچنے لگے۔

اس ادارہ کے قیام کے ابتدائی دور میں آپ کو بہت شدیدمصائب و مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جس کا آپ نے بڑے صبر و تحمل کے ساتھ مقابلہ بھی فرمایا جو صرف حضرت فقیہِ اعظم ہند علیہ الرحمہ کا ہی خاصہ ہے۔یہ دشواریاں ان کے امتحان کے لئے نہ تھیں بلکہ قدرت کو اس سے آپ کی شخصیت کو درجہئ کمال تک پہچانا مقصود تھا۔ آپ نے تمام مشکلات و انقباض کا بڑی خندہ پیشانی سے مقابلہ کیا حتٰی کہ کبھی ماتھے پر شکن نہ آئی اور کبھی بھی ہمّت نہیں ہارے۔

کہنے کو تو یہ بڑی آسان بات ہے، کہ ایک مدرسہ کی بنیاد ڈالدی، جبکہ یہاں دینی مدارس کا  کوئی ماحول نہ تھا، اس کے لئے کوئی عمارت نہ تھی، اورنہ اس کو چلانے کیلئے سر مایہ فر اہم تھا۔ اورنہ باقاعدہ کوئی عملہ(اسٹاف)۔ ایسے حالات میں مدرسہ کی بنیاد ڈال کر حضرت کو شہرت وعزت کی خواہش نہ تھی۔ بلکہ اسلام کی محبت اور عشقِ رسول ﷺ کا جذبہ کار فرماتھا کہ مسلمانوں میں حقیقی مذہبی شعوربیدار کیاجائے۔ اسلامی تہذیب و تمدن کا ایک ایسا ماحول پیدا کرنا مقصود تھا، جو کہ سلف صالحین کے نقش ِقدم پر چلنے میں مددفراہم کر سکے ا ور ایسے اسلامی عقائد کی ترویج مقصود تھی جہاں سرورکائنات ﷺسے عشق و محبت کا دریا موجزن ہو،ایسا ماحول پیدا کرنا کوئی آسان کام نہ تھا، چنانچہ اپنے مقصد کو حاصل کرنے اور منزل مقصود تک پہنچانے کے لئے جن صبر آزما حالات کا مقابلہ کرنا پڑااُن سے صرف وہی حضرات واقف ہیں جنہوں نے اُس ابتدائی زمانہ کو دیکھا ہے یا وہ جانتے ہیں جو شریکِ سفر وہم رکاب رہے۔

چنانچہ ان چشم دید اور شریکِ سفر حضرات کے بیانات تصدیق کے ساتھ موجودہیں کہ آپ نے کس عزم و حوصلے کے ساتھ ناساز گار حالات کا مقابلہ کیا،جامعہ نامی ایک بیج بویا اور زمین کی آبیاری کی جب پودانکلاتو اُس کو تنادر درخت بنانے کیلئے جیسا ایثارفرمایا اس کی مثال دیکھنے اور سننے میں نہ آئی۔ بعض بددین اور گمراہ لوگ یہ خیال کرتے تھے کہ آپ اس ادارہ کوقائم کرکے دولت و عزت اورشہرت حاصل کرنا چاہتے ہیں، مگر ایسا نہ ہوابلکہ ہو ہی نہیں سکتا تھا، اس لئے کہ یہ ایک ایسا منطقی انداز فکرہے جو کہ جہلا کے خیالات سے ماورا ہے۔


اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔