تعارف

"جامعہ عربیہ اسلامیہ ناگپور مہاراشٹرا ” ایک غیر سرکاری، دینی اور علمی ادارہ ہے۔ جو اپنے نصاب تعلیم، نظم و نسق اور تربیت کے اعتبار سے ایک امتیازی حیثیت رکھتا ہے۔

برصغیر-ہند و پاک و بنگلہ دیش-کے مسلمانوں پر علماءحق کا بہت بڑا احسان ہے، جنہوں نے دینی مدارس اور جامعات قائم کرکے ایک طرف دینی علوم – علوم نبوت – کی حفاظت کی تو دوسری طرف ایسے علماء حق پیداکئے جنہوں نے اس امت کی دینی، ایمانی اور اخلاقی تربیت فرمائی، اسی کی برکت ہے کہ آج شعائر اسلام زندہ ہیں، معروف اور منکر کا فرق واضح ہے اور دلوں میں ایمان کی حرارت باقی ہے۔

علماء حق کی ان برگزیدہ ہستیوں میں بانی جامعہ فقیہ اعظم ہند مفتی عبدالرشید خان فتحپوری علیہ الرحمہ تھے، جنہیں صدرالافاضل مولانا مفتی نعیم الدین مرادآبادی جیسے جید اکابر سے شرف تلمذ اور رفاقت حاصل ہوئی اور اپنی پوری زندگی علوم دینیہ کی اشاعت وترویج نیزتعلیم و تدریس میں گزاری-  ۔

اس طویل تجربہ سے آپ کے دل میں ایک داعیہ تھاہی کہ ایک عظیم دینی علمی درسگاہ کا قیام عمل میں لایا جائے،اور علم دین کی اہمیت وافادیت کے پیش نظر حضرت فقیہ اعظم ہند علیہ الرحمۃ والرضوان نے ایک مضبوط اور مستحکم علمی مرکز کے قیام پر غور وخوض فرمایا، آپ کی نگاہ انتخاب حضرت بابا سید محمد تاج الدین اور آپ کے پیر ومرشد قدس سرھما کے توسل سے وسط ہند کے صوبہ سی۔پی وبرار (جو موجودہ مہاراشٹر،ایم۔پی، اڑیسہ وغیرہ ہے) کے دارالحکومت ناگپور پر مرکوز ہوئی، اس زمانہ میں تمام علاقہ خصوصاً ناگپور جہاں کثیر تعداد میں مسلمان آباد تھے کوئی دینی درس گاہ نہیں تھی،علاقہ دین کی روشنی سے بے بہرہ تھا، گونڈوانہ حکومت ہونے کی وجہ سے نہ یہاں علم دین تھا نہ علم پرور حضرات یہاں مذہبی باتوں کا اختیار کرنا دینی فقدان کے سبب بہت دشوار تھا، مقامی مسلمانوں کی اکثریت ہندوانہ رسم ورواج میں ملوث نظر آتی تھی اور جہالت اور گمراہی کا شکار تھی مثلاً ماہ محرم میں سواری اٹھانا، خود اور اپنے بچوں کو شیر کی شبیہ میں رنگوا کر گلے میں طوق وزنجیریں ڈال کر باجے تاشے کے ساتھ جلوس نکالتے علاوہ ازیں اور بھی طرح طرح گمراہیوں میں مبتلا تھے، اسلامی عقائد ونظریات سے ناواقفیت کے سبب اس علاقے کے مسلمانوں کی اخلاقی ومالی حالات بھی نہایت ابتر تھی،اسی اثنا میں حضرت فقیہ اعظم ہند حضرت مفتی محمد عبدالرشید فتحپوری علیہ الرحمۃ والرضوان کے پیر ومرشد شیخ المشائخ اعلیٰ حضرت سید شاہ علی حسین میاں اشرفی علیہ الرحمہ ۱۳۴۲؁ھ مطابق ۱۹۲۴؁ء میں حضرت بابا سید محمد تاج الدین رحمۃ اللہ علیہ سے شرف ملاقات کے لئے ناگپور تشریف لائے، تو حضرت بابا سید محمد تاج الدین رحمۃ اللہ علیہ سے اپنے خیالات واحوالات کا اظہار کرتے رہے دوران گفتگو بابا نے فرمایا”جو مولوی صاحب (حضرت فقیہ اعظم ہند) کچھوچھہ شریف میں پڑھارہے ہیں، ان کی یہاں ضرورت ہیں، ان کو یہاں بھیجتے“ اعلیٰ حضرت اشرفی میاں نے بھیجنے کا وعدہ فرمایا۔اس طرح فقیہ اعظم ہند، تاج ملت والدین حضرت بابا سید محمد تاج الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کی نگاہ انتخاب تھے۔حضرت بابا کے حکم کے مطابق ناگپور تشریف لائے حضرت سے ملاقات فرمائی اور یہاں ایک دینی درسگاہ جامعہ عربیہ اسلامیہ کی بنیاد رکھی، اور ساری زندگی فی سبیل للہ دینی خدمات انجام دیتے رہے نیز تبلیغ دین کی غرض سے ایک مکتبہ بنام لطیفیہ اور دارالعلاج قائم فرمایا ساتھ ہی دارالافتاء، دارالقضاء بھی قائم فرمائے مختصر یہ کہ علم دین کی گرانقدر خدمات انجام دی، حضرت فقیہ اعظم ہند مفتی عبدالرشید خانصاحب فتح پوری قدس سرہٗ نے اس علاقہ میں دینی وعلمی بصیرت کا وہ ثبوت پیش کیا کہ جس کی مثال نہیں ملتی،آپ کی دینی وعلمی خدمات مسلم تھی۔ جس طرح راقم الحروف کے جد امجد حضور فقیہ اعظم ہند قدس سرہٗ نے خلوص وللہیت کے ساتھ دین وسنیت کی اعلیٰ قدر خدمات انجام دیں اللہ تبارک تعالیٰ ہم سب کو بھی اسی طرح اخلاص کے ساتھ دین وسنیت کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ سید المرسلین افضل الصلوٰۃ والتسلیم۔

حضور فقیہ اعظم ہند رحمہ اللہ علیہ کی محنت کو اللہ تعالیٰ نے قبولیت بخشی اور ان کی زندگی میں اس جامعہ کی حیثیت ایک بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کی ہوگئی، جہاں سے ہندوستان اور بیرون ہندوستان کے ہزاروں تشنگان علم فیض یاب ہوکر اپنے اپنے ملکوں  اور علاقوں میں کام کرنے لگے۔نیز جامعہ کی کئی شاخیں قائم ہو گئی۔


اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔