مسلمانوں کے آپسی تنازاعات خصوصاً نزاع بین الزوجین کے شرعی فیصلے وغیرہ حل کرنے نیز فسخ نکاح وغیرہ کے لئے جامعہ عربیہ اسلامیہ ناگپور کے اہم ترین شعبہ ”دارالقضاء“ (عدالت شرعیہ) سے رابطہ کریں

دارالقضاء(عدالتِ شرعیہ) جامعہ ناگپور کا قیام

تقریباً پچاس پچپن سال قبل ہندوستان کے صوبہ بہار میں ملک بھر کے علمائے اہلسنّت سے استصواب رائے کے بعد ایک ممتاز ادارہ بنام (ادارہئ شرعیہ بہار) کی داغ بیل ڈالی گئی جسکا مقصد مسلمانوں کے آپسی تنازاعات خصوصاً نزاع بین الزوجین کے شرعی فیصلے وغیرہ حل کرنا تھا اس کے واسطے قائد اہلسنّت حضرت علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ نے ایسے فقہی جرئیات کو جمع کرایا جس میں مذاہب اربعہ کے مطابق تفریق بین الزوجین یا تفسیخ نکاح کی جانب رہنمائی ہوسکے،جن جزئیات کی تصدیق ملک بھرکے مقتدر علمائے کرام کے ساتھ ساتھ حضور فقیہ اعظم ہند استاذ العلماء و المحدثین حضرت علامہ مولانا مفتی محمد عبدالرشید خانصاحب فتحپوری نعیمی رحمتہ اللہ علیہ نے بھی فرمائی لیکن ادارہئ شرعیہ بہار کے ذمہ داران کی دارالقضاء کے متعلق عدم توجہی کی وجہ سے اکابرین تشویش کے شکار ہوئیں اسی اثناء میں وسط ہند میں جامعہ عربیہ اسلامیہ ناگپور نے بھی اس اہم ترین شعبہ ”دارالقضاء“ (عدالت شرعیہ)کی بنیاد رکھی،دارالقضاء میں مسلمانوں کے آپسی تنازاعات خصوصاً نزاع بین الزوجین کے فیصلے ہوتے ہیں،اس شعبہ کا اہم کارنامہ مسلم ازدواجی زندگی کو اسلامی خطوط کے مطابق سنوارنا اور نزاع بین الزوجین کا تصفیہ ہے جسے بہ حسن و خوبی جامعہ عربیہ کے ذریعہ انجام دیا جارہا ہے،دارالقضاء جامعہ عربیہ اسلامیہ،ناگپور کے متعلق خلیفہ اعلحٰضرت حضور برہان ملت و الدین حضرت علامہ مولانا مفتی برہان الحق رضوی جبلپورری رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ نے ایک مکتوب بنام شہزادہ و جانشین حضور فقیہ اعظم ہند امیر شریعت فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد عبدالقدیر خانصاحب مدظلہ النورانی روانہ فرمایا تھاملاحظہ فرمائیں:
”عزیز القدر فاضل نوجوان مولانا مفتی محمد عبدالقدیر صاحب اعزہ ربہ المناقب و المناصب سلام و دعائے رحمت و عافیت ترقی اقبال مکتوب عزیز بدست حافظ مولوی عبدالرزاق جبل پوری سلمہ مسرت افزا ہوا عدالت شرعیہ یا دارالقضاء شرعی کا قیام بڑا مبارک اوربہت مبارک اقدام ہے جس کی ہمارے ہندوستان کے مسلمانان اہلسنّت کے لیے اشدضرورت تھی۔مولانا ارشدالقادری عم فیضہ نے پٹنہ میں ادارہئ شرعیہ بہار کے نام سے دارالقضاء کا انتظام کیا،لیکن آج تک پتہ نہ چلا کہ وہ کیا کررہے ہیں فقیر کے اشارہ پر یہاں سے کئی ایک مظلومہ اور اپنے شوہروں کے مظالم کی شکار عورتوں کی جانب سے تفریق اور فسخ نکاح وغیرہ کی درخواستیں بھیجی گئیں۔لیکن آج تک کوئی نتیجہ نہیں۔فقیر آپ کے اور آپ کے رفقائے کار کے اس مستحسن اقدام کو بہت مبارک سمجھتا ہے۔اس ادارہ کے قیام کے کچھ قواعد و ضوابط مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔
فقیر اپنی بصارت کی کمزوری اور دماغ کے ضعف کے سبب خود لکھنے پڑھنے سے مجبور ہے لیکن آں عزیز اس سلسلہ میں مولانا مفتی غلام محمد صاحب اور مولانا مفتی عبدالحلیم صاحب وغیرہما کو اپنے مشورہ میں شامل فرماکر فتاویٰ رضویہ سے مدد لے کر ایک لائحہ عمل مرتب فرمالیں۔اور دفتر عدالت قضائے شرعی قائم فرماکر اس کا عام اعلان اردو اخبارات یا خاص اشتہار کے ذریعہ سے پورے ہندوستان میں ہونا چاہیے۔فقیر موجودہ ضعف شدید اور گوناگوں عوارض و ناگفتہ حالات کے باوجود حسب استطاعت خدمت کے لیے حاضر ہے۔کسی بھی درخواست کے فیصلہ کے سلسلہ میں،چند مقتدر اور فاضل علماء کا بورڈ بنانا ضروری ہے۔
نوٹ:۔ فقیر کا مشورہ ہے۔دارالقضاء شرعی کے قیام اور اس کے اعلان کے بعد کسی مسلم وکیل کے مشورہ سے پارلیمنٹ کے مسلم ممبران کے ذریعہ اس دارالقضاء کو حکومت سے منظور اور رجسٹر ڈکرانا اشد ضروری ہے۔تاکہ اس کے فیصلوں کو چیلنج کرنے والوں کی وجہ سے گورنمنٹ کی کورٹ میں قضائے شرعی کی فیصلوں کی قانونی حیثیت برقرار رہے۔“(مکتوبات فقیہ اعظم ہند صفحہ ۸۸)
وقت کی سنگین ضرورت کے پیش نظر شہزادہ ئ فقیہ اعظم ہند امیر شریعت حضرت علامہ مفتی محمد عبدالقدیر خانصاحب مدظلہ لعالی نے نہ صرف دارالقضاء ک(عدالت شرعیہ)ی بنیاد رکھی بلکہ تقریباً پچاس سالوں سے مسلمانان اہلسنّت کی ازدواجی مسائل و تنازعات کو شریعت مطہرہ کی روشنی میں بلا کسی فیس کے کررہے ہیں اللہ عزوجل انکی گرانقدر خدمات دینیہ کو اپنی بار گاہ میں قبول فرمائے۔۔آمین بجاہ سیدالمرسلین علیہ افضل الصلاۃ و التسلیم
ناچیز محمد عبدالعزیز خاں قادری غفرلہ


اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔