اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔
جامعہ کی تاسیس
جامعہ عربیہ اسلامیہ کا قیام:ماہ ذی الحجہ۱۳۵۵ھ میں جامعہ عربیہ اسلامیہ کا باقاعدہ قیام عمل میں آیا جس میں شروع سے لیکربخاری شریف کی تعلیم تک کا انتظام کیا گیا حضرت علیہ الرحمہ کی علمی قابلیت اور ٹھوس صلاحیت اور فقہ میں بھر پورِدسترس اور تقویٰ طہارت پر کمال حاصل تھا۔ جب طلباء و علماء کو معلوم ہوا کہ نائب اعلیٰ حضرت ناگپور پہنچ گئے ہیں تو تشنگان علمِ دین جوق درجوق جامعہ عربیہ اسلامیہ ناگپور حضرت کی خدمت میں اپنی علمی پیاس بجھانے کیلئے پہونچنے لگے۔
جا معہ عر بیہ اسلامیہ کے حالاتِ حاظرہ:جا معہ عر بیہ اسلامیہ (سال قیا م ۱۹۸۳ء کا دا ئر ہ تعلیم اس کے با نی و مہتم حضرت علامہ مو لا نا مفتی عبد الر شید خان صاحب فتح پو ری علیہ الرحمہ کے وصال (۲۴ دسمبر ۱۹۷۴ء) کے بعد حلقۂ محفوص کی مسلسل فتنہ پرستی کے چلتے ادارے کی وہ وسعت باقی نہ رہی جس کی توقع عوام و خواص رکھتے ہیں نیر شہرکے کی عوام اپنی نسل کو علوم دینیہ سے وابسطہ بھی نہیں رکھنا چاہتے بیشتر عوام کا مزاج عصری علوم ہی تک محدود ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ عظیم الشان درس گا ہ وسط ہند میں اعلا دینی تعلیم کی نشر و ا شا عت اور تحر یک کی حیثیت ر کھتی۔ آج اس کی عما رت میں امِ سلمہ گرلز کا لج اور رشیدیہ اسکول قا ئم ہے۔ اور مدرسہ کی تعلیم وہی اسکول کے بچوں کو دی جاتی ہیں۔ لیکن اب اس کا معیار وہ نہیں رہا جوفقیہِ اعظم ہندعلیہ الرحمہ کی زندگی میں تھا۔ یہاں سے اس کے قیام سے اب تک علمی استفادہ کر کے فا رغ ہو نے وا لوں کی تعداد حسبِ ذیل ہے:
(۱)شعبہ فضیلت، ۵۱۱ علما
(۲)شعبہ حفظ، ۲۵۵۷ حفاظ
ٍ(۳)شعبہ تجوید، ۳۵۰۰ قر أ
(۴)شعبہ افتا، ۲۵۷ مفتیان
(۵)شعبہ طب، ۵۵۱حکما
(۶)شعبہ پر ائمری، ۴۰۹۰ طلبہ
جا معہ کے یہ فا رغین ملک بھر میں پھیلے ہو ئے ہیں اور پُر خلوص خد مت انجام دے رہے ہیں۔ کاش کہ اس کا روش اور تا بناک ما ضی پھر لو ٹ آ تا۔ مگر افوس اس حقیقت سے کوئی مجال انکار نہیں کہ مدارس اسلامیہ ہمیشہ سے رہے ہیں۔ لیکن افوسناک صورتحال یہ بھی ہے کہ آج کل مدارس اپنے فارغین کو دور جدید میں پیش آنے والے علمی و فقہی چیلنجز کا سامنا کرنے کے قابل بنانے میں کامیاب نہیں ہیں۔ دینی مدارس کے موجودہ حالات پر محض ایک سرسری نظر ڈالنے سے ہی اس بات کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہیکہ یہ اپنے ان حقیقی مقاصد سے بہت پیچھے ہیں جو ہمارے اصحاب بصیرت علماء اور اسلامی دانشور دان نے ان کے آغاز سفر میں طے کیا تھا۔ آج مدارس کے نااہل، حریض اور خود غرض منتظمین جو مذہبی اداروں کے مقاصد سے بالکل ہی ناواقف ہوتے ہیں، اکثر ہندوستانی مدارس پر اپنی اجارہ داری قائم کرچکے ہیں۔ لہٰذا طلباء کو موجودہ عہد میں درپیش دینی علمی اور سماجی مسائل کے حل کے لئے تیار کرنے کی توبات ہی چھوڑدیں، جو کہ اسلامی تعلیمی کا اداروں کا بنیادی مقصد ہے۔ بہت سے مدارس میں مسلم بچے بنیادی اسلامی تعلیمات سے بھی نا آشناس ہیں۔